نیتن یاہو کا جنرل اسمبلی میں سخت پیغام: “ہورغمالی رہا کرو تو زندہ رہو گے”

0

نیویارک(ویب ڈیسک)اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس، حزبِ اللہ، ایران اور یمن کے حوثیوں کو سخت الفاظ میں دھمکیاں دیں اور کہا کہ ان کے خلاف حملے جاری رہیں گے جب تک ان کے اہداف ختم نہ کیے جائیں۔

نیتن یاہو نے خطاب میں اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی ان رپورٹس کو مسترد کیا جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ انہوں نے اپنے موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے “دشمنوں” کے خلاف کارروائیاں کیں جن کا مقصد خود کو محفوظ بنانا تھا اور وہ اپنی سکیورٹی کے دفاع میں سخت اقدامات جاری رکھیں گے۔

وزیراعظم نے براہِ راست حماس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: “حماس سے کہتا ہوں — ہتھیار ڈال دو؛ تمام یرغمالی رہا کرو گے تو زندہ رہو گے، ورنہ مار دیئے جاؤ گے۔” انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں حماس کی باقیات ابھی موجود ہیں اور انہیں مکمل طور پر ختم کرنا ان کا مشن ہے۔

نیتن یاہو نے الفاظ میں سختی کے ساتھ دعویٰ بھی کیا کہ اسرائیل نے متعدد اہم مخالف کمانڈروں اور جوہری ماہرین کو نشانہ بنایا ہے اور ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی فورسز کا نام لے کر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امریکی بی ٹو بمبار طیاروں نے ایران کے بعض تنصیبات کو نشانہ بنانے میں مدد کی۔

اپنے خطاب میں انہوں نے حزبِ اللہ، حوثیوں اور شام کے بارے میں بھی سخت بیانات دیے اور کہا کہ اسرائیل نے ان گروہوں کے ہتھیار اور جنگی صلاحیتیں کم کرنے کی کارروائیاں کیں۔ نیتن یاہو نے وہ یورپی ممالک بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ عوامی سطح پر اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں مگر نجی ملاقاتوں میں شکریہ ادا کرتے ہیں۔

یہ خطاب ایسے وقت میں آیا ہے جب خطے میں کشیدگی اور انسانی ہلاکتوں کے دعوے بین الاقوامی سطح پر شدید بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے متعدد بار تنازع کے دوران عام شہریوں کی حفاظت اور بین الاقوامی قوانین کے احترام پر زور دے چکے ہیں؛ تاہم نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں ان تنقیدوں کو مسترد کیا اور کہا کہ اسرائیل اپنی قومی سلامتی کے تحت سخت اقدامات اٹھاتا رہے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.